:مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی اڈے: اہم ممالک اور ان کی حکمتِ عملی
واشنگٹن: امریکہ کے ہزاروں فوجی اہلکار اس وقت مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک میں موجود امریکی اڈوں پر تعینات ہیں۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران امریکی افواج بارہا فوجی کارروائیاں انجام دے چکی ہیں۔
گزشتہ ہفتے اسرائیل نے ایران کے خلاف ایک غیر معمولی فضائی مہم شروع کی، اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عندیہ دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ مل کر اس جنگ میں شمولیت پر غور کر رہے ہیں۔ اگر امریکہ براہ راست اس تنازع میں شامل ہوتا ہے تو ایران کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں موجود امریکی فوجی اڈوں پر جوابی حملوں کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ یہ وہی اڈے ہیں جن پر پہلے ہی ایران نواز مسلح گروہوں نے اسرائیل-حماس جنگ کے دوران حملے کیے تھے۔
ذیل میں ہم ان ممالک پر نظر ڈالتے ہیں جہاں مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج کی سب سے بڑی موجودگی ہے۔ یہ تمام علاقے امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔
بحرین
خلیجی ریاست بحرین میں امریکی بحریہ کا اڈہ "نیول سپورٹ ایکٹیویٹی بحرین" کے نام سے موجود ہے، جہاں امریکی بحریہ کے پانچویں بیڑے (Fifth Fleet) اور نیول فورسز سینٹرل کمانڈ کا ہیڈکوارٹر قائم ہے۔
بحرین کی گہری بندرگاہ میں امریکہ کے بڑے جنگی جہاز، جیسے طیارہ بردار بحری جہاز بھی لنگر انداز ہو سکتے ہیں۔ امریکہ 1948 سے یہاں بحریہ کے اس اڈے کو استعمال کر رہا ہے، جب یہ برطانوی رائل نیوی کے زیر انتظام تھا۔
اس وقت کئی امریکی جہاز بحرین میں موجود ہیں جن میں چار اینٹی-مائن (بارودی سرنگ شکن) جہاز اور دو لاجسٹک سپورٹ شپ شامل ہیں۔ امریکی کوسٹ گارڈ کی چھ تیز رفتار گشتی کشتیوں کی تعیناتی بھی بحرین میں ہے۔
عراق
عراق میں امریکی فوجی متعدد اڈوں پر موجود ہیں، جن میں الاسد اور اربیل ایئر بیسز نمایاں ہیں۔ اگرچہ عراق کی حکومت ایران کی قریبی اتحادی ہے، لیکن ساتھ ہی امریکہ کے ساتھ بھی اس کی اسٹریٹجک شراکت داری موجود ہے۔
عراق میں تقریباً 2,500 امریکی فوجی تعینات ہیں جو داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کا حصہ ہیں۔ بغداد اور واشنگٹن کے درمیان اتحادی افواج کے بتدریج انخلا کے لیے ایک شیڈول بھی طے پایا ہے۔
اکتوبر 2023 میں غزہ جنگ کے آغاز کے بعد، عراق اور شام میں امریکی اڈوں پر ایران نواز گروہوں نے کئی بار حملے کیے، تاہم امریکہ نے بھی ایران سے منسلک اہداف پر جوابی کارروائیاں کیں، جس کے بعد حملے کم ہو گئے۔
کویت
کویت میں بھی امریکہ کے کئی فوجی اڈے قائم ہیں، جن میں کیمپ عریفجان قابل ذکر ہے، جو CENTCOM کے امریکی آرمی کے فارورڈ ہیڈکوارٹر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ امریکی فوج نے یہاں پہلے سے تیار شدہ اسلحہ اور سامان بھی ذخیرہ کر رکھا ہے۔
علی السالم ایئر بیس میں امریکی فضائیہ کی 386ویں ایئر ایکسپیڈیشنری ونگ تعینات ہے، جو خطے میں مشترکہ افواج کو جنگی وسائل فراہم کرنے کا مرکزی مرکز ہے۔ یہاں MQ-9 ریپر ڈرونز سمیت دیگر فضائی وسائل بھی موجود ہیں۔
قطر
قطر میں قائم العدید ایئر بیس CENTCOM کی فضائی اور خصوصی افواج کی فارورڈ تنصیبات کا مرکز ہے۔
یہاں امریکی فضائیہ کی 379ویں ایئر ایکسپیڈیشنری ونگ تعینات ہے، جو فضائی ترسیل، ایئر ریفیولنگ، انٹیلیجنس، نگرانی، اور طبی انخلا کی صلاحیتوں پر مشتمل ہے۔ یہاں مختلف جنگی طیارے بھی روٹیشن پر تعینات کیے جاتے ہیں۔
شام
شام میں امریکہ نے کئی برسوں سے اپنے فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں، جو داعش کے خلاف بین الاقوامی جنگ کا حصہ ہیں۔ داعش نے شام کی خانہ جنگی سے فائدہ اٹھا کر ملک اور عراق کے وسیع علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔
اپریل میں پنٹاگون نے اعلان کیا کہ وہ شام میں موجود اپنے فوجیوں کی تعداد تقریباً نصف کر کے 1,000 سے کم کر دے گا۔ یہ فیصلہ امریکی فوج کی موجودگی کو "مرکزی شکل" دینے کی پالیسی کے تحت کیا گیا ہے۔
متحدہ عرب امارات
متحدہ عرب امارات میں الظفرہ ایئر بیس پر امریکی 380ویں ایئر ایکسپیڈیشنری ونگ تعینات ہے، جو دس مختلف اسکواڈرنز پر مشتمل ہے اور MQ-9 ریپر ڈرونز بھی اس میں شامل ہیں۔
یہاں جنگی طیاروں کو بھی روٹیشن پر تعینات کیا جاتا ہے۔ الظفرہ میں ہی خلیجی فضائی جنگی مرکز (Gulf Air Warfare Center) قائم ہے جہاں فضائی و میزائل دفاعی مشقیں کی جاتی ہیں۔
نتیجہ
مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی فوجی موجودگی اس خطے کی جیوپولیٹیکل پیچیدگیوں کا عکس ہے۔ یہ اڈے نہ صرف فوجی طاقت کی علامت ہیں بلکہ کسی بھی ممکنہ تصادم میں امریکہ کے تیز رفتار ردعمل کے مراکز بھی ہیں۔ تاہم، ان کی موجودگی خطے کے استحکام اور امریکی مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ خطرات کا بھی باعث بن سکتی ہے۔
0 تبصرے